تیری دل نواز باتیں تری دل نشیں ادائیں
تری آرزو میں کیسے نہ جہاں کو بھول جائیں
کوئی گیت گنگنائیں کہ غزل کوئی سنائیں
ترے گیسوؤں کے سائے میں یہ سوچ بھی نہ پائیں
یہ نہ جانے آج کس نے در دل پہ دی ہے دستک
یہ جو اٹھ رہا ہے طوفاں اسے کس طرح دبائیں
یہ نوازش جنوں ہے کہ فسوں تری نظر کا
یہ مطالبہ ہے دل کا ابھی اور فریب کھائیں
تری انجمن میں اب بھی ہیں شمیمؔ اجنبی سے
کسے رازداں بنائیں کسے زخم دل دکھائیں
No comments:
Post a Comment