ردائے بے بسی اوڑھے ہوئے ہیں
خُنک حالات کے مارے ہوئے ہیں
نمازِ اعتبارِ جاں میں ہر دم
ہم اپنے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہیں
تری فرقت کے باعث اے مرے یار
کشادہ سب کے سب کپڑے ہوئے ہیں
وہ شب میں کاٹنے آئے تھے مہتاب
جنھوں نے تارے یاں بوئے ہوئے ہیں
ہوس کے دور میں ہم جیسے عبدی
محبت کا بھرم رکھے ہوئے ہیں
No comments:
Post a Comment