ادھر ذرا سی لرزش آٸی دست باغبان میں
گلاب سوکھنے لگے کسی محل کے لان میں
میں سن کہ چپ ہوا اور اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑا
رقیب سوچتے رہے کہ کیا کہا ہے کان میں
میں بد مزاج افسروں کی نوکری نہ کر سکا
وگرنہ کامیاب ہو گیا تھا امتحان میں
یہ لوگ میری بزم کے تماش بین تھے کبھی
جو آج کل قصیدے پڑھ رہے ہیں تیری شان میں
مرے بغیر ہی ہو جاتے ہیں سب اہم فیصلے
میں مختلف ہوں باقیوں سے پورے خاندان میں
No comments:
Post a Comment