اے نظاروں مجھے کچھ غم کے سوا یاد نہیں
کب مرے شہر سے گزری تھی صبا یاد نہیں
یوں فلک پر تو ستارے تھے درخشاں لیکن
راہ ظلمات میں کب ابھری ضیا یاد نہیں
تنکے کی طرح بکھر ہی گیا تھا میرا وجود
کن گناہوں کی ملی مجھ کو سزا یاد نہیں
بے خودی میں بھلا کچھ ہوش کہاں تھا خود کو
کس طرح اپنا یہ سرمایہ لٹا یاد نہیں
تیری حساس مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
ایک قصہ بھی تجھے درد بھرا یاد نہیں
وقت کی بھیڑ میں ہم لوگ بھی کتنے گم ہیں
کون زندہ ہے ابھی کون مرا یاد نہیں
ہم نے ہر دور میں موسم کا اثر دیکھا ہے
اس قدر ملک کی بگڑی تھی فضا یاد نہیں
کتنی غمناک تھی وہ شام جدائی دانش
کس طرح وقت کا سورج یہ ڈھلا یاد نہی
No comments:
Post a Comment