یوم پیدائش 07 جنوری 1971
پہلے کچھ دیر چراغوں میں نظر آتا ہے
پھر وہ چہرہ مری آنکھوں میں نظر آتا ہے
اک زمانہ ہوا بچھڑے اُسے لیکن اب بھی
راہ چلتے ہوئے لوگوں میں نظر آتا ہے
تتلیاں ورنہ کہاں ڈھونڈتیں اس کو جا کر
اس کا احساں ہے کہ پھولوں میں نظر آتا ہے
دشت و دریا کے مناظر میں ہے بکھرا بکھرا
حسن جیسا ترے وعدوں میں نظر آتا ہے
دل بھی ساتھ اس کے دھڑکتا ہو ضروری تو نہیں
ہاتھ جس کا مرے ہاتھوں میں نظر آتا ہے
یہ جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اندر کی گھٹن
ایسا ماحول تو باغوں میں نظر آتا ہے
جانے کیا ہے کہ سمندر ہی سمندر ہر سو
پچھلے کچھ روز سے خوابوں میں نظر آتا ہے
اور پیغام لیے پھرتی ہے ساحل کی ہوا
اضطراب اور ہی لہروں میں نظر آتا ہے
مجھ کو آغوش میں لے لیتی ہے تنہائی حسن
چاند جب پیڑ کی بانہوں میں نظر آتا ہے
حسن عباسی
No comments:
Post a Comment