رباعی
اب دل میں محبت کا شرارا بھی نہیں
کچھ آپ کی نظروں کا اشارا بھی نہیں
کس درجہ ہوئی تیرہ و تاریک حیات
پلکوں پہ لرزتا ہوا تارا بھی نہیں
رباعی
بجلی کا گھٹاؤں میں سفر ہوتا ہے
تاروں میں تجلی کا گذر ہوتا ہے
اے روشنی_قلب کے منکر سن لے
پتھر کے بھی سینے میں شرر ہوتا ہے
رباعی
آغوش_قمر میں جو مچل جاتی ہے
پھولوں کے جو پہلو سے نکل جاتی ہے
وہ مہکی ہوئی چاندنی کیسے ساقی
ہر صبح مرے جام میں ڈھل جاتی ہے
No comments:
Post a Comment