جدید دور ہے کچھ حادثات لے کے چلو
تم اپنے ساتھ مقدر کا ہاتھ لے کے چلو
شبِ الم ہے غمِ کائنات لے کے چلو
دکھوں کے آبلے راہوں میں ساتھ لے کے چلو
ظلسم ٹوٹ ہی جائے گا پھر اندھیرے کا
ہتھیلیوں پہ چراغِ حیات لے کے چلو
اگر ہے شکوہ سحر سے تمہیں تو اپنے لئے
جو ختم ہو نہ کبھی پھر وہ رات لے کے چلو
اکیلے چلنے کا کیا لطف نورؔ دنیا میں
’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘
No comments:
Post a Comment