روداد غم کی جب سے شہرت سی ہو گئی ہے
رنگینئ جہاں سے وحشت سی ہو گئی ہے
تیور بتا رہے ہیں انداز بے رخی کے
ان کو جفا سے شاید رغبت سی ہو گئی ہے
ناحق اٹھا رہے ہو طوفاں تجلیوں کے
ذوق نظر کو میرے غفلت سی ہو گئی ہے
محسوس کر رہا ہوں تار نفس میں تیزی
کچھ اضطراب غم میں شدت سی ہو گئی ہے
مطلب نہیں کرم سے بے مہریوں کا غم کیا
صبر و رضا سے اب تو الفت سی ہو گئی ہے
تاروں کی انجمن میں محو خیال ہو کر
راتوں کو جاگنے کی عادت سی ہو گئی ہے
دل بجھ چکا ہے باسطؔ باقی نہیں تمنا
اب زندگی سے مجھ کو نفرت سی ہو گئی ہے
باسط اوجینی
No comments:
Post a Comment