دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ
تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ
میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے
دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ
ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں
صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ
اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن
کوئی جنت بھی اگر ہے پس دیوار نہ دیکھ
ان دمکتے ہوئے لمحات کے جادو سے نکل
وقت کی چال سمجھ شوخئ رفتار نہ دیکھ
غم سے لڑنا ہے تو پھر غم زدہ صورت نہ بنا
زندہ رہنا ہے تو مردوں کے یہ اطوار نہ دیکھ
میرے نغمات کو تفریح کے کانوں سے نہ سن
رقص کی پیاس ہے آنکھوں میں تو پیکار نہ دیکھ
قدردانی کو مراتب کے ترازو میں نہ تول
کون افسرؔ ہوا یوسف کا خریدار نہ دیکھ
سعید افسر
No comments:
Post a Comment