زر غبار کو آئینہ بار کر نہ سکے
نقوش عکس کو تصویر یار کر نہ سکے
ہے وحشتوں کا تلاطم پسِ نوائے سکوت
میان موجۂ گل ذکر یار کر نہ سکے
نہ اضطراب، نہ غوغائے گریہ و ماتم
شہاب غم بھی مجھے بے قرار کر نہ سکے
ٹپک نہ چشمِ ہم آہنگ سے اے قطرۂ خوں
کہ چارہ گر بھی تجھے شرمسار کر نہ سکے
ستارہ گیر تھا رخشِ ہنر مگر پھر بھی
طلسم حسن سخن بے کنار کر نہ سکے
ہزار زاویۂ حرف آشکار کیے
قبائے سرو غزل زرنگار کر نہ سکے
No comments:
Post a Comment