اندر باہر اوپر نیچے خواب ہی خواب
دائیں بائیں آگے پیچھے خواب ہی خواب
خوشبو شبنم رنگ کی دنیا ایک فریب
غنچے گل بوٹے باغیچے خواب ہی خواب
آنکھیں چہرے چاند ستارے رات ہی رات
دروازے دیوار دریچے خواب ہی خواب
حسرت ٹہنی ٹہنی نیند میں ڈوبی تھی
بکھرے تھے پیڑوں کے پیچھے خواب ہی خواب
کاش کہ زندہ ہوتے احساسات سبھی
دیکھا کرتے آنکھیں میچے خواب ہی خواب
امیدیں مہدی کے تلوے چاٹ گئیں
دکھلاتے کب تک غالیچے خواب ہی خواب
خواہش خواہش جو چاہو چن لو پرویزؔ
چھوڑ چلے ہم اپنے پیچھے خواب ہی خواب
No comments:
Post a Comment