حادثے ہم سے گلے مِل کے پشیماں ہونگے
ہم بہ ہر دَور حریفِ غمِ دوراں ہونگے
رُخ ہواؤں کا بدلتا تھا کبھی جن کے لئے
کیا خبر تھی وہ سفینے تہِ طوفاں ہونگے
تپنے دے اور ذرا آتشِ غم میں دل کو
جتنے جوہر ہیں بیک وقت نُمایاں ہونگے
ساری دُنیا تو نہ کھائے گی تبسم کا فریب
کچھ تو انداز شناسِ غمِ پنہاں ہونگے
غم مرتب ہو تو سنجیدگی آجاتی ہے
ورنہ دنیا میں کئی چاک گریباں ہونگے
ضبط فطرت کے تقاضوں سے نہ جیتے گا کبھی
دل جو تڑپے گا تو آنسو سرِ مژگاں ہونگے
آپ زُلفوں کو سنواریں کہ پریشان رکھیں
ہونے والے تو بہر حال پریشاں ہونگے
ہم تو خیر اہلِ وفا ٹھیرے ہمارا کیا ہے
آپ کو مشقِ جفا کم ہے، پشیماں ہونگے
درد جب دیتا ہے سانسوں کو بھی آہوں کا خراج
اوج انفاس وھَاں شعلہ بَداماں ہونگے
اوج یقوبی
No comments:
Post a Comment