تا حشر رہے دل کو یارب آزار مدینے والے کا
سنتے ہیں مسیحا ہوتا ہے بیمار مدینے والے کا
اے زائر طیبہ فکر ہے کیوں تم نے تو مدینہ دیکھا ہے
پروانۂ جنت ہوتا ہے دیدار مدینے والے کا
خود فاقے کئے غیروں کو دیا اور پیٹ سے یتھر کو باندھا
اے صَلِّ علےٰ سبحان اللہ ایثار مدینے والے کا
کیا ذکر ترے میخانے کا کوثر کو بھی ٹھکرا دیتا ہے
ساقی ہے دو عالم سے برہم میخوار مدینے والے کا
بیواؤں یتیموں کا حامی ہر بے کس و مضطر کا والی
مخلوق پہ تھا اللہ و غنی یہ پیار مدینے والے کا
بیکار ہے یہ فرد عصیاں بے سود ہیں شعلے دوزخ کے
بخشش کیلئے بس کافی ہے اقرار مدینے والے کا
تا حشر ر ہے گی اے واقف گلہائے عقیدت کی خوشبو
شاداب رہے گا عالم میں گلزار مدینے والے کا
No comments:
Post a Comment