نہ شکوہ نہ برہم ہوا جانتی ہے
یہ ظرفِ وفا ہے ،دعا جانتی ہے
سفینہ مرا چُوم لوٹے گی آندھی
مرے حوصلوں کو ہوا جانتی ہے
جنوں اک طرف وصل کی آرزو کا
محبت روا ناروا جانتی ہے
در و بام واقف ہیں کلفت سے میری
مرے غم کی شدت دوا جانتی ہے
بہت نرم یوں ہی نہیں فصلِ گل پر
صبا رنگ و بو کی نوا جانتی ہے
وہی ساغرِ خستہ دامن ہوں لوگو
ستمگر جسے ماسوا جانتی ہے
No comments:
Post a Comment