Urdu Deccan

Saturday, April 15, 2023

عطیہ داؤد

یوم پیدائش 01 اپریل 1958
نظم بھروسے کا قتل

مذہب کی تلوار بنا کر 
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار 
میرے من آنگن کو روند ڈالا 
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر 
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو 
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا 
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر 
بابا کا آنگن پار کر کے 
تمہارے لائے سانچے میں 
میں نے پایا تھا اپنا وجود 
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی 
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر 
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے 
تیروں کی بوچھاڑ سے 
اس سانچے میں رہنے کی خاطر 
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی 
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا 
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی 
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا 
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے 
میں نے کئی بار دیکھا ہے 
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے 
طلاق یافتہ عورت کو 
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح 
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر 
قناعت کیے بیٹھی رہی 
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مگر اتنا یقین ہے 
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں 
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں 
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل 
کوئی پل صراط نہیں 
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے 
اس کی پیشانی پر بھی 
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں 
جب وہ مجھے دیکھتی ہے 
خوشی اس کے سینے میں 
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے 
میں ان سے لڑ نہیں سکتی 
ان میں تم شامل ہو 
میں تم سے لڑ نہیں سکتی 
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں 
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں 
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے 
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں 
جو اپنے مفاد میں تم نے 
میرے مقدر میں لکھا ہے 
عطیہ داؤد 




 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...