نمو کو شاخ کے آثار تک پہنچنا ہے
بکھر کے پھول نے مہکار تک پہنچنا ہے
ہم اپنی سلطنت شعر میں بہت خوش ہیں
وہ اور ہیں جنہیں دربار تک پہنچنا ہے
غریب شہر کے بہتے لہو کا ذکر فقط
وہ سرخیاں جنہیں اخبار تک پہنچنا ہے
ہمیں جو چپ سی لگی ہے یہ بے سبب تو نہیں
کسی خیال کو اظہار تک پہنچنا ہے
طلسم عمر کی تعریف ساری اتنی سی
اک آئنہ جسے زنگار تک پہنچنا ہے
کچھ ایسے لوگ جو شانوں پہ سر نہیں رکھتے
مگر یہ زعم کہ دستار تک پہنچنا ہے
وہ دن گئے کہ کوئی اشک پونچھنے آئے
یہاں تو آپ کو غم خوار تک پہنچنا ہے
نورین طلعت عروبہ
No comments:
Post a Comment