قدم بڑھاتے ہی منزل دِکھانے لگتے ہیں
یہ راستے تو بڑے ہی سیانے لگتے ہیں
کسی غریب کے گھر میں اُگے اگر سورج
اندھیرے پورے محلّے پہ چھانے لگتے ہیں
ہَوا بھی رُخ کبھی اپنا جِدھر نہیں کرتی
اُسی گلی کے مناظِر سُہانے لگتے ہیں
خزاں میں پیڑ پہ پتّے ذرا نہیں ٹِکتے
بہار آتے ہی رشتے نِبھانے لگتے ہیں
حِنا کا بوجھ اُٹھانے کی جِن میں تاب نہیں
وہ آسمان کو سَر پر اُٹھانے لگتے ہیں
کسی نظر سے اُترنے کو ایک پَل ہے بہت
نظر میں چَڑھنے کو لیکن زمانے لگتے ہیں
No comments:
Post a Comment