ستم کی تیغ چلی تیر بھی جفا کے چلے
جو بات حق تھی سر دار ہم سنا کے چلے
کچھ ایسی دور نہ تھیں منزلیں محبت کی
وفور شوق میں ہم فاصلے بڑھا کے چلے
جو آب و دانہ چمن سے اٹھا چمن والو
ہر اک شاخ پہ ہم آشیاں بنا کے چلے
اٹھے تو محفل رنداں سے تشنہ کام مگر
قدم قدم پہ ہم ایک مے کدہ بنا کے چلے
سلگ سلگ کے رہے جو دیا بجھا نہ سکے
گئے تو جاتے ہوئے آگ وہ لگا کے چلے
خیالیؔ شعر ہے کیا یہ تو اہل فن جانیں
ہم اپنے دل کی بہ شکل غزل سنا کے چلے
No comments:
Post a Comment