راس آئی نہ کوئی راہ گزر ، وقت لگا
ہائے! بےکار گیا میرا سفر ، وقت لگا
زخم گُھلتے ہیں یہاں وقت کی گُزران سے گر
راس آئے گی یہ تنہائی ، اگر وقت لگا ؟
میں بھری دنیا میں کہتا تھا تجھے اپنا کبھی
کُھل گئی رمزِ شناسائی مگر وقت لگا
دل کی تنہائی کسی طور بھی جانے کی نہیں
ویسے کا ویسا ہے یہ زخم جگر ، وقت لگا
اِک جَماعت نے مِرے بغض میں کیا کیا نہ کیا
کب مِرا ظرف ہوا زیر و زبر ، وقت لگا
اُس نے "کُن" کہہ کے بنا ڈالی یہ دنیا ساری
ہم سے بن پایا نہ اِک ادنیٰ سا گھر ، وقت لگا
No comments:
Post a Comment