طبیبِ زیست کوئی زخم مندمل نہ ہُوا
تری اداؤں پہ مائل ہمارا دل نہ ہُوا
میں جانتا تھا کہ وہ عذر ہی تراشے گا
میں اس کو سنتا رہا اور مشتعل نہ ہُوا
اگرچہ قلب کے بخیے ادھڑ گئے لیکن
ہمارا جسم کسی طور مضمحل نہ ہُوا
لہو سے سینچا گیا تھا وفا کے پودے کو
اسی لیے تو وہ محتاجِ آب و گِل نہ ہُوا
کہیں شعور , کہیں لاشعور , تحتِ شعور
مگر یہ ذہن عناصر پہ مشتمل نہ ہُوا
جب اس کے لب سے تبسم کی اک کرن پھوٹی
تو سچ بتاؤ کہ یاقوت منفعِل نہ ہُوا
یہ کون سمجھے کہ ہے فن کی انتہا حیرت
مرے خیال میں رہ کر بھی وہ مخل نہ ہُوا
ہم اس کے سامنے اظہار کس لیے کرتے
کہ پتھروں میں کبھی درد منتقل نہ ہُوا
ہُوا ہے مِہر علی مِہر سرخرو ایسے
تمھاری بزم سے نکلا مگر خجل نہ ہُوا
No comments:
Post a Comment