افکار کو غرور کے سانچے میں ڈھال کے
اسباب پیدا کر لئے اس نے زوال کے
معلوم ہیں مزے ہمیں روٹی کے دال کے
برسوں سے کھا رہے ہیں نوالے حلال کے
باغی نہ ہو سکا مرے اندر کا آدمی
رکھا ہے اسکے پاؤں میں زنجیریں ڈال کے
جگنو غزل گلاب گہر چاند بن گئے
جب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے میرے خیال کے
ناسور بن نہ جائے کہیں سرکشی جناب
کوڑے میں پھینک دیجیے اس کو نکال کے
بوسیدہ سے مکاں میں ہے کامل مرا قیام
اجداد کی رکھی ہے امانت سنبھال کے
کامل حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment