حادثہ رونما نہیں ہو گا
دشت ایسی جگہ نہیں ہو گا
اک ترے نام کے سوا لب پر
دوسرا , مدعا نہیں ہو گا
زندگی ہجر میں گزاروں گی
عشق ہے, بارہا نہیں ہو گا
تو میسر نہ ہو سکے گا مجھے
ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہو گا
صرف تصویر کے سہارے پر
دور دل کا خلا نہیں ہو گا
کیا ستم ہے بچھڑ کے آنکھوں کو
خواب کا آسرا نہیں ہو گا
ہوں گے دنیا میں اور بھی لیکن
شہر لاہور سا نہیں ہو گا
بیوفائی کا رنج سہہ لوں گی
زخم دل کا ہرا نہیں ہو گا
جس طرح ہم جدا ہوئے تسنیم
کوئی ایسے جدا نہیں ہو گا
No comments:
Post a Comment