نوحہ وحدت کا مرکز
کس سمت ہے دشتِ کرب و بلا معبود کا کعبہ کہتا ہے
آ دیکھ لے مرکز وحدت کا شبیر کا سجدہ کہتا ہے
سر ننگے ہیں زینب میداں میں دنیا کا اندھیرا کہتا ہے
کس طرح چھپالیں دامن میں اجڑا ہوا خیمہ کہتا ہے
عباس وفا کے سائے میں یوں مشک بھری تھی پانی سے
ہر موج تمہاری ہو کے رہی بہتا ہوا دریا کہتا ہے
لیلیٰ ہیں سرہانے بیٹے کے عاشور کی شب ہے آنسو ہیں
آرام سے اکبر سوتے ہیں شمعوں کا اجالا کہتا ہے
ہے رحلِ امامت پر قرآں یا باپ کے ہاتھوں پر اصغر
امت کو بچالیں گے ہنس کر معصوم ارادہ کہتا ہے
شانے بھی کٹے زخمی بھی ہوئے پانی نہ مگر خیمے میں گیا
دریا کے کنارے ریتی پر عباس کا لاشہ کہتا ہے
ہر گام پہ ٹھوکر مولا کی ہر راہ میں کثرت فوجوں کی
کس طرح تمہیں ڈھونڈیں اکبر آنکھوں کا اندھیرا کہتا ہے
دل اپنا سنبھالو اے بانو اصغر نہ پلٹ کے آئیں گے
سوکھے ہوئے آنسو کہتے ہیں ٹھہرا ہوا جھولا کہتا ہے
رکتے ہوئے خنجر کی جنبش شبیر کا خوں مقتل کی زمیں
جب بال کھلے ہیں زہراء کے میداں کا اندھیرا کہتا ہے
کچھ پھول پڑے ہیں سہرا کے کچھ ایڑیاں گھسنے کے ہیں نشاں
شہ لے کے گئے ہیں قاسم کو میدان کا رستا کہتا ہے
برچھی کی چمک میں دل کا لہو انگڑائی جوانی اور اکبر
بابا کی نگاہیں دیکھ نہ لیں اکبر کا کلیجہ کہتا ہے
بے گور و کفن ہوگا بھائی خیمے بھی جلیں گے مقتل میں
اور بال کھلیں گے میداں میں ہمشیر کا پردہ کہتا ہے
اکبر کی اجل شبیر کا دل خیمے پہ نگاہیں راہ کٹھن
کیا دیکھ لی میت لیلٰی نے ہلتا ہوا پردہ کہتا ہے
حق کو بھی چھپا سکتا ہے کوئی دنیا کی اندھیری منزل میں
اے بدر ہر اک آنسو میں مرے شبیر کا جلوہ کہتا ہے
مملکت بدر
No comments:
Post a Comment