مزاحیہ
جب ملے ہم اور سلمہ عشق فرمانے لگے
پھر زمانے بھر کی دونوں گالیاں کھانے لگے
وه بھی ہم کو دوستو لیلیٰ کی ماں لگنے لگی
ہم بھی اس کو قیس کے والد نظر آنے لگے
محشر فیض آبادی
مزاحیہ
جب ملے ہم اور سلمہ عشق فرمانے لگے
پھر زمانے بھر کی دونوں گالیاں کھانے لگے
وه بھی ہم کو دوستو لیلیٰ کی ماں لگنے لگی
ہم بھی اس کو قیس کے والد نظر آنے لگے
محشر فیض آبادی
یوم پیدائش 25مئی 1912
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا
میراجی
یوم پیدائش 25مئی 1831
کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی یے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ دہلوی
عناد، بغض و حسد اور نفرتوں کا لہو
رگوں میں دوڑ رہا ہے عداوتوں کا لہو
ہوائے شہر ہوئی جب سے خودسر و ببارک
جنوں زدہ ہوا جاتا ہے چاہتوں کا لہو
صحافتیں ہوئیں جب سے سیاستوں کی غلام
ورق ورق پہ ہے بکھرا حقیقتوں کا لہو
اگر نہ ہوتا یہاں بول بالا رشوت کا
تو رائیگاں نہیں جاتا لیاقتوں کا لہو
ادب کی بزم میں تُک بندیاں! معاذ اللہ
نہیں ہے تاب جو دیکھوں بلاغتوں کا لہو
لہو لہو ہوئی دھرتی لہو لہو آکاش
ہے شش جہات میں بکھرا رفاقتوں کا لہو
جدید فکر و ترقی کے نام پر انساں
بہا رہا ہے مسلسل روایتوں کا لہو
انا کی پیاس بجھانے کے واسطے تم کو
ملا تھا شاؔد ہماری ہی حسرتوں کا لہو
شمشاد شاؔد،
یوم پیدائش 24 مئی 1951
یہ کیا ہوا کہ شور سرِدار ختم شد
جاں ختم شد کہ یورشِ آزار ختم شد
پل بھر میں چور چور تھا آئینہء خیال
صد اہتمامِ عکسِ گل و خار ختم شد
آؤ کہ ہم بھی زیست کا ساماں خرید لیں
زاں پیشتر کہ رونقِ بازار ختم شد
بھر بھر کے لوگ جاتے رہے ہیں جبینِ شوق
ہم آئے ہیں تو خاک درِ یار ختم شد
سائے سے ا پنا ساتھ قدم دو قدم کا تھا
دیوار ختم، سایۃ دیوار ختم شد
جس نے کہا اسی کے طرفدار ہو گیئے
وا حسرتا! وہ جرآتِ انکار ختم شد
جاہ و جلال حاکمِ دوراں یہ کیا کیا
اظہار صدق بر سرِ دربار ختم شد
مدت کے بعد ایک دریچہ کھلا کنور
گویم ، حضور ! خواہشِ دیدار ختم شد
اعجاز کنور راجہ
سبھی راستے ترے نام کے سبھی فاصلے ترے نام کے
کبھی مل مجھے مری سوچ کے سبھی دائرے ترے نام کے
مرے کام کے تو نہیں ہیں یہ یہ جو میرے لات و منات ہیں
یہ مجھے عزیز ہیں اس لیے کہ ہیں سلسلے ترے نام کے
میں شراب پیتا تو کس طرح مجھے تیرے حکم کا پاس تھا
مگر آج ساقی نے جب دیئے مجھے واسطے ترے نام کے
کوئی منبروں پہ ہے معتبر کوئی سر کشیدہ ہے دار پر
وہ سہولتیں ترے ذکر کی یہ مجاہدے ترے نام کے
یہاں جو بھی تھا وہ تجھی سے تھا یہاں جو بھی ہے وہ تجھی سے ہے
سبھی عکس ہیں تری ذات کے سبھی رنگ تھے ترے نام کے
ابھی میں نے ظلمت شب کی سمت نگاہ ڈالی تھی غور سے
کہ کسی نے دل کی منڈیر پر دیئے رکھ دیے ترے نام کے
حسن شاہنواز
یوم پیدائش 24 مئی 1965
کتنے اچھے ہیں مرے گھر کے پرانے برتن
چھت ٹپکتی ہے تو کیچڑ نہیں ہونے دیتے
ہم ترے دل میں سکونت بھی نہیں کر پائے
اور ترے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر پائے
ہم وہ مجبور ِ تمنا کہ بھری دنیا میں
اپنے حصے کی محبت بھی نہیں کر پائے
ہم نہیں جانتے کہتے ہیں جوانی کس کو
ہم تو بچپن میں شرارت بھی نہیں کر پائے
سرور خان سرور
بدنامیوں کو نام کہو گے کہاں تلک
یوں پستیوں کو بام کہو گے کہاں تلک
اک اہل زر کا کھیل ہے دستورِ مملکت
اِس ظلم کو نظام کہو گے کہاں تلک
ڈھل جائے گی ہاں خود ہی یہ کیوں انتظار ہے
ظلمت کی شب کو شام کہو گے کہاں تلک
یہ جبر کا نظام کہو اب نہیں قبول
یوں تلخیوں کو جام کہو گے کہاں تلک
ندیم اعجاز
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...