نظر جھکا کے ادب سے کلام کرتا ہوں
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
وہاں کے لوگ ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
ذرا سی دیر جہاں پر قیام کرتا ہوں
یہاں کے لوگ مرے اس لئے بھی دشمن ہیں
میں تیرگی کو مٹانے کا کام کرتا ہوں
یہ میرے شعر یہ غزلیں یہ حُسن کی باتیں
وہ جانتی ہے کہ میں کس کے نام کرتا ہوں
سنا ہے تم کو محبت کی اب ضرورت ہے
ذرا کٹھِن ہے مگر انتظام کرتا ہوں
سوال کرتے ہوئے لب گلاب لگتے ہیں
سو لوٹنے میں ہمیشہ ہی شام کرتا ہوں
یہاں کی ساری حسینائیں مجھ سے واقف ہیں
میں بچپنے سے محبت کو عام کرتا ہوں
پھر اس کے بعد بہت درد ہے کہانی میں
جو تاب لا نہ سکو اختتام کرتا ہوں
عارش نظام
No comments:
Post a Comment