یوم پیدائش 22 جنوری 1958
ہم سے نظریں جو ملاؤ تو غزل ہو جائے
اپنی پلکوں کو اٹھاؤ تو غزل ہو جائے
سوئے احساس جگاؤ تو غزل ہو جائے
آگ پانی میں لگاؤ تو غزل ہو جائے
میرے اشعار کو میٹھا سا ترنم دے کر
اپنے ہونٹوں پہ سجاؤ تو غزل ہو جائے
اب تلک ہجر کی راتوں نے جلایا ہے مجھے
وصل کی شمعیں جلاؤ تو غزل ہو جائے
شبِ تاباں کو ذرا اور نکھر جانے دو
حوصلے اور بڑھاؤ تو غزل ہو جائے
حرف سے لفظ بنو ،لفظ سے اشعار بنو
یوں تخیل کو سجاؤ تو غزل ہو جائے
مظہر قریشی
No comments:
Post a Comment