یوم پیدائش 22 جنوری 1934
دل والے ہیں ہم رسم وفا ہم سے ملی ہے
دنیا میں محبت کو بقا ہم سے ملی ہے
وہ خندہ بہ لب ذکر گلستاں پہ یہ بولے
غنچوں کو تبسم کی ادا ہم سے ملی ہے
صدیوں سے ترستے ہوئے کانوں میں جو پہنچی
تاریخ سے پوچھو وہ صدا ہم سے ملی ہے
ہم وہ ہیں کہ خود پھونک دیئے اپنے نشیمن
گلشن کے اندھیروں کو ضیا ہم سے ملی ہے
کیا ایک ہی محور پہ ہے ٹھہری ہوئی دنیا
وہ جب بھی ملی ہے تو خفا ہم سے ملی ہے
وہ بت جو خدا آج بنے بیٹھے ہیں ان کو
یہ شان خدائی بہ خدا ہم سے ملی ہے
ہم ٹھہرے ہیں طوفان حوادث کے مقابل
بڑھ بڑھ کے گلے موج بلا ہم سے ملی ہے
سیکھا ہے جلانے کا چلن شمع نے تم سے
پروانوں کو جلنے کی ادا ہم سے ملی ہے
ہم اہل محبت ہیں لہو دیتے ہیں راہیؔ
بے نور چراغوں کو ضیا ہم سے ملی ہے
راہی شہابی
No comments:
Post a Comment