Urdu Deccan

Friday, January 22, 2021

رہی شباہی

 یوم پیدائش 22 جنوری 1934


دل والے ہیں ہم رسم وفا ہم سے ملی ہے 

دنیا میں محبت کو بقا ہم سے ملی ہے 


وہ خندہ بہ لب ذکر گلستاں پہ یہ بولے 

غنچوں کو تبسم کی ادا ہم سے ملی ہے 


صدیوں سے ترستے ہوئے کانوں میں جو پہنچی 

تاریخ سے پوچھو وہ صدا ہم سے ملی ہے 


ہم وہ ہیں کہ خود پھونک دیئے اپنے نشیمن 

گلشن کے اندھیروں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


کیا ایک ہی محور پہ ہے ٹھہری ہوئی دنیا 

وہ جب بھی ملی ہے تو خفا ہم سے ملی ہے 


وہ بت جو خدا آج بنے بیٹھے ہیں ان کو 

یہ شان خدائی بہ خدا ہم سے ملی ہے 


ہم ٹھہرے ہیں طوفان حوادث کے مقابل 

بڑھ بڑھ کے گلے موج بلا ہم سے ملی ہے 


سیکھا ہے جلانے کا چلن شمع نے تم سے 

پروانوں کو جلنے کی ادا ہم سے ملی ہے 


ہم اہل محبت ہیں لہو دیتے ہیں راہیؔ 

بے نور چراغوں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


راہی شہابی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...