Urdu Deccan

Tuesday, July 27, 2021

کاش قنوجی

 یوم پیدائش 25 جولائی


مرے خدا تو مجھے خود سے آشنا کر دے 

میں تیری یاد سے بھٹکوں مجھے فنا کر دے 


تمام عمر وہ میرے وصال کو ترسے 

تو اس کے دل کو جدائی سے آشنا کر دے 


وہ ہم کو دور سے دیکھے تڑپ کے رہ جائے 

ہمارے بیچ میں تو اتنا فاصلہ کر دے 


میں اس کے بعد سے تنہا ہوں ایک مدت سے 

کسی کو بھیج دے دنیا میں آسرا کر دے 


میں تیری یاد سے غافل نہ ہونے پاؤں کبھی 

تو اپنی ذات میں کچھ اتنا مبتلا کر دے 


بس ایک آخری خواہش ہے تیرے کاشفؔ کی 

تو اپنے پاس بلا لے اسے رہا کر دے 


کاش قنوجی


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


کسی کا عشق مرے دل میں ہوگیا پیدا

صدا اسی کی ہر اک جا سنائی دیتی ہے


کیا ہے عشق نے آنکھوں کو اسقدر روشن

کہ روشنی سی ہر اک سو دکھائی دیتی ہے


یہ سچا پیار ہے ہاں سچا پیار ہے میرا

یہی صدا مجھے دل سے سنائی دیتی ہے


نہ میری روح نہ میرا بدن خلاف اس کے

کہ مجھ پہ اس کی حکومت دکھائی دیتی ہے


سلوک ایک سا کرتی نہیں ہے الفت بھی

ملن کسی کو کسی کو جدائی دیتی ہے


نہ فکر کیجئے اس کی ولاء یہ دنیا ہے

یہ نیکیوں کے صلے میں برائی دیتی ہے


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی


طاہر سعود کرتپوری

 اس طرح ہم ہیں کسی کے واسطے

وزن جیسے، شاعری کے واسطے


میری قسمت میں اسےلکھ اس طرح

فاطمہ ؓجیسے علی ؓ کے واسطے


اک پڑوسی رات بھر روتا رہا

اک پڑوسی کی خوشی کے واسطے


کچھ دنوں کا فقر و فاقہ اور غم

کیا بھلا اک جنتی کے واسطے


جس نے بخشےہیں ہمیں پیارےرسولؐ

ساری تعریفیں اسی کے واسطے


باپ کے پاؤں دبائے عمر بھر،

ماں کے چہرےکی خوشی کےواسطے


طاہر سعود کرتپوری


صبا تابش

 جیسے ہوں نقب کاری کے آلات مرے ہاتھ

دستک سے الجھتے رہے کل رات مرے ہاتھ


قدموں سے لپٹ جائے فرات آج بھی میرے

دجلہ کے کناروں سے کریں بات مرے ہاتھ


موسیقیِ باراں ہو کہ ہو بات تمہاری

لکھتے ہیں بڑے شوق سے نغمات مرے ہاتھ


ہے جس کا فسوں دہر کی ہر شے میں نمایاں

اس کے بھی رقم کرتے ہیں جذبات مرے ہاتھ


کرتی رہیں عباس ؓ کا گریہ مری آنکھیں

لکھتے رہیں زینب ؓ کی فتوحات مرے ہاتھ


ہیں پاک سبھی آلِ نبی رجس سے تابش

تطہیر سے آیا ہے یہ اثبات مرے ہاتھ


صبا تابش


انیتا سونی

 یوم پیدائش 07 جولائی 


زمانہ سنگ ہے فریاد آئینہ میری

غلط کہوں تو زباں چھین لے خدا میری


ترا قصور ہے اس میں نہ ہے خطا میری

تری زمیں پہ جو برسی نہیں گھٹا میری


جہاں سے ترک تعلق کیا تھا تو نے کبھی

کھڑی ہوئی ہے اسی موڑ پر وفا میری


تم اس لباس دریدہ پہ طنز کرتے ہو

اسی لباس میں محفوظ ہے حیا میری


اس اک خیال سے دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے

ڈبو نہ دے کہیں کشتی کو ناخدا میری


انیتاؔ اس کو نہ آنا تھا وہ نہیں آیا

بلا بلا کے اسے تھک گئی صدا میری


انیتا سونی


رضوان عارب لغاری

 تجھے میں خوابوں میں دیکھتا ہوں

کئی حجابوں میں دیکھتا ہوں


ہے رنگ دل اور لہو کا میرے

جو میں گلابوں میں دیکھتا ہوں


  مجھے جو تنہائی دے گیا ہے

اُسے عذابوں میں دیکھتا ہوں


منافقوں کے ہیں رنگ جتنے

وہ سب خطابوں میں دیکھتا ہوں


بہت پرندے ہیں چست لیکن 

ہنر عقابوں میں دیکھتا ہوں


جو دسترس میں نہیں ہے عارب

وہ اپنے خوابوں میں دیکھتا ہوں


رضوان عارب لغاری


امیتا پرسورام میتا

 زندگی اپنا سفر طے تو کرے گی لیکن

ہم سفر آپ جو ہوتے تو مزا اور ہی تھا


کعبہ و دیر میں اب ڈھونڈ رہی ہے دنیا

جو دل و جان میں بستا تھا خدا اور ہی تھا


اب یہ عالم ہے کہ دولت کا نشہ طاری ہے

جو کبھی عشق نے بخشا تھا نشہ اور ہی تھا


دور سے یوں ہی لگا تھا کہ بہت دوری ہے

جب قریب آئے تو جانا کہ گلا اور ہی تھا


میرے دل نے تو تجھے اور ہی دستک دی تھی

تو نے اے جان جو سمجھا جو سنا اور ہی تھا


امیتا پرسو رام میتا


اقبال شاہ

 یوم پیدائش 21 مارچ 1957


پرفتن جو شباب ہوتے ہیں

ناگہانی عذاب ہوتے ہیں


جن میں ٹوٹیں محبتوں کے گھڑے

وہ ستم گر چناب ہوتے ہیں


جو بھی سجتے ہیں تیرے جوڑے میں

وہ حسیں تر گلاب ہوتے ہیں 


بن ترے یہ رواں دواں دریا

درحقیت سراب ہوتے ہیں


تیرے پہلو میں بیٹھنے والے

لوگ عالی جناب ہوتے ہیں


اقبال شاہ


شازیہ نیازی

 یوم پیدائش 23 جولائی


بس ایک بار کہا نا نہیں بنا سکتی

میں روز روز بہانا نہیں بنا سکتی 


ترا خیال مری روٹیاں جلاتا ہے

میں اطمنان سے کھانا نہیں بنا سکتی


ضرور وہ کسی آسیب کی گرفت میں ہے

میں اس قدر تو دِوانہ نہیں بنا سکتی


سبھی کی تنگ خیالی نے گھر کو بانٹ دیا

اکیلی سوچ گھرانا نہیں بنا سکتی  


نئے نئے سے یہ انداز چبھ رہے ہیں مگر

میں تم کو پھر سے پرانا نہیں بنا سکتی 


شازیہ نیازی


نادیہ عنبر لودھی

 یوم پیدائش 23 جولائی


وہ گھر تنکوں سے بنوایا گیا ہے

وہاں ہر خواب دفنایا گیا ہے


مری الفت کو کیا سمجھے گا کوئی

سبق نفرت کا دہرایا گیا ہے


مرے اندر کا چہرہ مختلف ہے

بدن پہ اور کچھ پایا گیا ہے


ہوئی ہے زندگی افتاد ایسے

ہوس میں ہر مزا پایا گیا ہے


کہی ایسی ہے عنبرؔ اس کی ہر بات

شکستہ دل کو تڑپایا گیا ہے


نادیہ عنبر لودھی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...