یوم پیدائش 20 فروری 1970
صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ
اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
ارشاد آرزو
یوم پیدائش 20 فروری 1970
صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ
اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
ارشاد آرزو
یوم وفات 20 فروری 1972
کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے
نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے
پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا
بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے
گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے
نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے
بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں
بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے
جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں
نہیں اس سے واقف ترے عرش والے
تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا
زمانے ابھی اور ہیں آنے والے
گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری
کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے
نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے
اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے
بشیرالنساء بیگم بشیر
یوم پیدائش 19 فروری 1947
(نظم ) اپنی تصویر مجھے آپ بنانی ہوگی
میرے فن کار
!!مجھے خوب تراشا تو نے
آنکھ نیلم کی
بدن چاندی کا
یاقوت کے لب
یہ ترے
ذوق طلب کے بھی ہیں
معیار عجب
پاؤں میں میرے
یہ پازیب
سجا دی تو نے
نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے
یہ جواہر سے جڑی
قیمتی مورت میری
اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے
میں نے مانا
کہ حسیں ہے ترا شہکار
مگر
تیرے شہکار میں
مجھ جیسی کوئی بات نہیں
تجھ کو نیلم سی
نظر آتی ہیں آنکھیں میری
درد کے ان میں سمندر
نہیں دیکھے تو نے
تو نے
جب کی
لب و رخسار کی خطاطی کی
جو ورق لکھے تھے
دل پر
نہیں دیکھے تو نے
میرے فن کار
ترے ذوق
ترے فن کا کمال
میرے پندار کی قیمت
نہ چکا پائے گا
تو نے بت یا تو تراشے
یا تراشے ہیں خدا
تو بھلا کیا مری تصویر
بنا پائے گا
تیرے اوراق سے
یہ شکل مٹانی ہوگی
اپنی تصویر
مجھے آپ بنانی ہوگی
ہوش بھی
جرأت گفتار بھی
بینائی بھی
جرأت عشق بھی ہے
ضبط کی رعنائی بھی
جتنے جوہر ہیں نمو کے
مری تعمیر میں ہیں
دیکھ یہ رنگ
جو تازہ مری تصویر میں ہیں
نیسم سید
یوم پیدائش 18 فروری 1961
دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے
پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے
ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف
تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے
ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات
آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے
دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت
روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے
اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا
رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے
آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں
بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے
عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے
سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم
ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے
اکرم نقاش
یوم پیدائش 18 فروری 1979
نظم “ یاسیت “ ٹوٹے دلوں کے نام
اب میں وحشت میں بہت دور نکل آیا ہوں
ایسی تنہائی، کہ اب کوئی نہیں ساتھ میرے
جوئے غم ، چشمۂ خوں ناب ،سے ایسے نکلی
دارِفانی سے ، کوئی روح ، چلی ہو جیسے
کوئی تارہ ، کوئی جگنو ، کوئی امید ، نہیں
اب تو ہر سانس میری ، ماتمِ تنہائی ہے
روزنِ سینۂ ء عاشق سے ، نکلتی ہے ہوا
جیسے اک سوز میں ڈوبی ہوئی شہنائی ہے
خشک آنکھوں میں بسی یاس کی تاریکی ہے
جیسے اک سوگ فضاؤں میں بکھر جاتا ہے
جیسے شمشان میں اک زندہ چتا جل جائے
چشمِ خورشید میں وہ کرب نظر آتا ہے
خاک اڑتی ہے میری خاک لئے گلشن میں
اب نہ گلشن میں کبھی فصل بہاراں ہو گی
گل نہیں ، خار نہیں ، برگ نہیں ، بار نہیں
زخم پائیں گے نمو ، بزمِ خرابا ں ہو گی
محمد محسن علی آرزو
یوم پیدائش18 فروری 1957
پھولوں کا چاندنی کا نگر یاد ہے ہمیں
خوشیوں بھری تھی جس کی ڈگر یاد ہے ہمیں
چاہت سے جس پہ لکھا تھا اِک دوسرے کا نام
پیپل کا وہ گھنیرا شجر یاد ہے ہمیں
تسنیم کوثر
یوم پیدائش 18 فروری 1914
گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک
بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک
دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست
یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک
ابھے راج سنگھ شاد
یوم پیدائش 18 فروری 1971
کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا
ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا
جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو
اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا
سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا
اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا
دل کی تختی پہ بھی آیات لکھی رہتی ہیں
وقت مل جائے تو ان کی بھی تلاوت کرنا
دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو
خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا
جس میں کچھ قبریں ہوں کچھ چہرے ہوں کچھ یادیں ہوں
کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا
لیاقت جعفری
تاریخ پیدائش 17 فروری 1931
دامن نہ بچا پائے ہم ان کی محبت سے
پیروں میں کلیمؔ اپنے زنجیر نظر آئی
نثار احمد کلیم
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...