Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

ارشاد آرزو

 یوم پیدائش 20 فروری 1970


صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ

اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں


ارشاد آرزو


بشیر النساء بیگم بشیر

 یوم وفات 20 فروری 1972


کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے

نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے


پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا

بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے


گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے

نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے


بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں

بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے


جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں

نہیں اس سے واقف ترے عرش والے


تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا

زمانے ابھی اور ہیں آنے والے


گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری

کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے


نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے

اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے


بشیرالنساء بیگم بشیر


نسیم سید

 یوم پیدائش 19 فروری 1947

(نظم ) اپنی تصویر مجھے آپ بنانی ہوگی


میرے فن کار 

!!مجھے خوب تراشا تو نے 

آنکھ نیلم کی 

بدن چاندی کا 

یاقوت کے لب 

یہ ترے 

ذوق طلب کے بھی ہیں 

معیار عجب 

پاؤں میں میرے 

یہ پازیب 

سجا دی تو نے 

نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے 

یہ جواہر سے جڑی 

قیمتی مورت میری 

اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے 

میں نے مانا 

کہ حسیں ہے ترا شہکار 

مگر 

تیرے شہکار میں 

مجھ جیسی کوئی بات نہیں 

تجھ کو نیلم سی 

نظر آتی ہیں آنکھیں میری 

درد کے ان میں سمندر 

نہیں دیکھے تو نے 

تو نے 

جب کی 

لب و رخسار کی خطاطی کی 

جو ورق لکھے تھے 

دل پر 

نہیں دیکھے تو نے 

میرے فن کار 

ترے ذوق

ترے فن کا کمال

میرے پندار کی قیمت 

نہ چکا پائے گا 

تو نے بت یا تو تراشے 

یا تراشے ہیں خدا 

تو بھلا کیا مری تصویر 

بنا پائے گا 

تیرے اوراق سے 

یہ شکل مٹانی ہوگی 

اپنی تصویر 

مجھے آپ بنانی ہوگی 

ہوش بھی 

جرأت گفتار بھی 

بینائی بھی 

جرأت عشق بھی ہے 

ضبط کی رعنائی بھی 

جتنے جوہر ہیں نمو کے 

مری تعمیر میں ہیں 

دیکھ یہ رنگ 

جو تازہ مری تصویر میں ہیں 


نیسم سید


اکرم نقاش

 یوم پیدائش 18 فروری 1961


دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے


ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف

تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے


ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات

آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے


دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت 

روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے


اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا

رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے


آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں

بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے


عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر

کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے


سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم

ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے


اکرم نقاش




محمد محسن علی آرزو

 یوم پیدائش 18 فروری 1979

 نظم “ یاسیت “    ٹوٹے دلوں کے نام


اب میں وحشت میں بہت دور نکل آیا ہوں

ایسی تنہائی، کہ اب کوئی نہیں ساتھ میرے


جوئے غم  ، چشمۂ خوں ناب ،سے ایسے نکلی 

دارِفانی سے ، کوئی روح  ، چلی  ہو جیسے


کوئی تارہ  ، کوئی جگنو  ،  کوئی  امید  ، نہیں

اب  تو ہر سانس میری  ، ماتمِ  تنہائی  ہے


روزنِ  سینۂ ء عاشق سے  ، نکلتی ہے ہوا

جیسے اک سوز میں ڈوبی  ہوئی  شہنائی  ہے 


خشک آنکھوں میں بسی یاس کی تاریکی  ہے

جیسے اک سوگ فضاؤں میں بکھر جاتا ہے


جیسے شمشان میں اک زندہ چتا جل جائے

چشمِ خورشید میں وہ کرب نظر  آتا ہے


خاک اڑتی ہے میری خاک لئے گلشن میں

اب نہ گلشن میں کبھی فصل بہاراں ہو گی


گل نہیں ، خار نہیں ، برگ نہیں ، بار نہیں

زخم پائیں گے نمو ، بزمِ خرابا ں ہو گی


محمد محسن علی آرزو


تسنیم کوثر

 یوم پیدائش18 فروری 1957


پھولوں کا چاندنی کا نگر یاد ہے ہمیں

خوشیوں بھری تھی جس کی ڈگر یاد ہے ہمیں

چاہت سے جس پہ لکھا تھا اِک دوسرے کا نام

پیپل کا وہ گھنیرا شجر یاد ہے ہمیں


تسنیم کوثر


ابھے راج سنگھ شاد

 یوم پیدائش 18 فروری 1914 

 

گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک

بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک

دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست

یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک


ابھے راج سنگھ شاد


لیاقت جعفری

 یوم پیدائش 18 فروری 1971


کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا

ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا


جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو

اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا


سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا

اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا


دل کی تختی پہ بھی آیات لکھی رہتی ہیں

وقت مل جائے تو ان کی بھی تلاوت کرنا


دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو

خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا


جس میں کچھ قبریں ہوں کچھ چہرے ہوں کچھ یادیں ہوں

کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا


لیاقت جعفری


نثار احمد کلیم

 تاریخ پیدائش 17 فروری 1931


دامن نہ بچا پائے ہم ان کی محبت سے

پیروں میں کلیمؔ اپنے زنجیر نظر آئی


نثار احمد کلیم


حشم الرمضان

 یوم پیدائش 17 فروری 1934

    

  راکھ میرے نشیمن کی بکھری ہوئی

    فصل گل کاہے ’’صدقہ‘‘ اتارا ہوا


حشم الرمضان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...