Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

عرفان بنارسی

 یوم پیدائش 21 فروری 1950


آتے جاتے ہوئے موسم سے پتا چلتا ہے

خشک پتوں کی طرح ہم کو بکھرنا ہوگا


عرفان بنارسی


انجم باروی

 یوم وفات 21 فروری 2020


دریا میں پھوٹ پھوٹ کے کہتا تھا ہر حباب

اک پل کی زندگی ہے کچھ اس کے سوا نہیں


انجم باروی


احمد علی برقی اعظمی

 (نظم اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار)


اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار

یہ اتحاد فکر و نظر کی ہے یادگار


اردو زباں ہے جملہ زبانوں کا امتزاج

جس کا ادب ہے مظہرِ روداد روزگار


جمہوریت کی آج یہ زندہ مثال ہے

الفاظ ہر زبان کے ہیں اس میں بے شمار


اردو ادب کو جن پہ ہمیشہ رہے گا ناز

سرسید اور حالی تھے وہ فخر روزگار


شعرالعجم ہو شبلی کی یا سیرت النبی

عالم میں انتخاب ہیں اردو کے شاہکار


دنیا پہ آشکار ہے آج اس کی آب و تاب

غالب نے شعر و نثر کو بخشا ہے جو وقار


سوزِ دروں ہے میر کا اک محشرِ خیال

ہے شاعری نظیر کی آشوب روزگار


تھی داغ دہلوی کی زباں سہلِ ممتنع

تھے میر انیس مرثیہ گوئی کے شہریار


اردو ادب میں جس کی نہیں ہے کوئی مثال

اقبال کا کلام ہے وہ در شاہوار


برق اعظمی ہوں ، فیض ہوں ، احمد فراز ہوں

عہدِ رواں میں گلشنِ اردو کی تھے بہار


آزاد ہے یہ مذہب و ملت کی قید سے

ہر جا ملیں گے آپ کو اردو کے جاں نثار


منشی نولکشور ہوں یا سرکشن پرساد

طرزِ عمل سے اپنے تھے اردو کے پاسدار


چکبست ہوں ، فراق ہوں ، ملا ہوں یا نسیم

اردو کے جاں نثاروں کی لمبی ہے اک قطار


ہے اقتضائے وقت کہ اردو ہو سرخرو

ماحول آؤ مل کے کریں اس کا سازگار


عہدِ رواں میں اردو ہے اک عالمی زباں

مداح جس کے برقی ہیں دنیا میں بے شمار


احمد علی برقی اعظمی


شمشاد شاد

 دشتِ بے سایہ میں جھلساتی ہوا سے پوچھنا

تشنگی کیا چیز ہے یہ کربلا سے پوچھتا


غیرتِ جذبات پر کیا بیتی ہے بزم میں 

حرمت و توقیر کی خستہ قبا سے پوچھنا


ناز کرتے تھے کبھی میری وفاداری پر تم

کیوں ہوا میں بے وفا اپنی جفا سے پوچھنا


ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں غارِ تنہائی میں تم

شہر میں کیوں گن ہوئیں اپنی انا سے پوچھنا


کون سا جذبہ ہے اس میں کار فرما کیا کہوں

کیوں درختوں سے لپٹتی ہے لتا سے پوچھنا


وہ ترا رستے میں ملنا اور پھر بے ساختہ

مجھ سے میری خیریت ناز و ادا سے پوچھنا


شاد تم حالات کے مارے کسی انسان کی

داستاں جب پوچھنا تو ابتدا سے پوچھنا


شمشاد شاد


ارشاد آرزو

 یوم پیدائش 20 فروری 1970


صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ

اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں


ارشاد آرزو


بشیر النساء بیگم بشیر

 یوم وفات 20 فروری 1972


کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے

نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے


پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا

بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے


گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے

نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے


بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں

بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے


جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں

نہیں اس سے واقف ترے عرش والے


تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا

زمانے ابھی اور ہیں آنے والے


گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری

کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے


نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے

اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے


بشیرالنساء بیگم بشیر


نسیم سید

 یوم پیدائش 19 فروری 1947

(نظم ) اپنی تصویر مجھے آپ بنانی ہوگی


میرے فن کار 

!!مجھے خوب تراشا تو نے 

آنکھ نیلم کی 

بدن چاندی کا 

یاقوت کے لب 

یہ ترے 

ذوق طلب کے بھی ہیں 

معیار عجب 

پاؤں میں میرے 

یہ پازیب 

سجا دی تو نے 

نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے 

یہ جواہر سے جڑی 

قیمتی مورت میری 

اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے 

میں نے مانا 

کہ حسیں ہے ترا شہکار 

مگر 

تیرے شہکار میں 

مجھ جیسی کوئی بات نہیں 

تجھ کو نیلم سی 

نظر آتی ہیں آنکھیں میری 

درد کے ان میں سمندر 

نہیں دیکھے تو نے 

تو نے 

جب کی 

لب و رخسار کی خطاطی کی 

جو ورق لکھے تھے 

دل پر 

نہیں دیکھے تو نے 

میرے فن کار 

ترے ذوق

ترے فن کا کمال

میرے پندار کی قیمت 

نہ چکا پائے گا 

تو نے بت یا تو تراشے 

یا تراشے ہیں خدا 

تو بھلا کیا مری تصویر 

بنا پائے گا 

تیرے اوراق سے 

یہ شکل مٹانی ہوگی 

اپنی تصویر 

مجھے آپ بنانی ہوگی 

ہوش بھی 

جرأت گفتار بھی 

بینائی بھی 

جرأت عشق بھی ہے 

ضبط کی رعنائی بھی 

جتنے جوہر ہیں نمو کے 

مری تعمیر میں ہیں 

دیکھ یہ رنگ 

جو تازہ مری تصویر میں ہیں 


نیسم سید


اکرم نقاش

 یوم پیدائش 18 فروری 1961


دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے


ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف

تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے


ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات

آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے


دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت 

روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے


اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا

رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے


آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں

بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے


عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر

کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے


سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم

ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے


اکرم نقاش




محمد محسن علی آرزو

 یوم پیدائش 18 فروری 1979

 نظم “ یاسیت “    ٹوٹے دلوں کے نام


اب میں وحشت میں بہت دور نکل آیا ہوں

ایسی تنہائی، کہ اب کوئی نہیں ساتھ میرے


جوئے غم  ، چشمۂ خوں ناب ،سے ایسے نکلی 

دارِفانی سے ، کوئی روح  ، چلی  ہو جیسے


کوئی تارہ  ، کوئی جگنو  ،  کوئی  امید  ، نہیں

اب  تو ہر سانس میری  ، ماتمِ  تنہائی  ہے


روزنِ  سینۂ ء عاشق سے  ، نکلتی ہے ہوا

جیسے اک سوز میں ڈوبی  ہوئی  شہنائی  ہے 


خشک آنکھوں میں بسی یاس کی تاریکی  ہے

جیسے اک سوگ فضاؤں میں بکھر جاتا ہے


جیسے شمشان میں اک زندہ چتا جل جائے

چشمِ خورشید میں وہ کرب نظر  آتا ہے


خاک اڑتی ہے میری خاک لئے گلشن میں

اب نہ گلشن میں کبھی فصل بہاراں ہو گی


گل نہیں ، خار نہیں ، برگ نہیں ، بار نہیں

زخم پائیں گے نمو ، بزمِ خرابا ں ہو گی


محمد محسن علی آرزو


تسنیم کوثر

 یوم پیدائش18 فروری 1957


پھولوں کا چاندنی کا نگر یاد ہے ہمیں

خوشیوں بھری تھی جس کی ڈگر یاد ہے ہمیں

چاہت سے جس پہ لکھا تھا اِک دوسرے کا نام

پیپل کا وہ گھنیرا شجر یاد ہے ہمیں


تسنیم کوثر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...