یوم پیدائش 21 فروری 1950
آتے جاتے ہوئے موسم سے پتا چلتا ہے
خشک پتوں کی طرح ہم کو بکھرنا ہوگا
عرفان بنارسی
یوم پیدائش 21 فروری 1950
آتے جاتے ہوئے موسم سے پتا چلتا ہے
خشک پتوں کی طرح ہم کو بکھرنا ہوگا
عرفان بنارسی
یوم وفات 21 فروری 2020
دریا میں پھوٹ پھوٹ کے کہتا تھا ہر حباب
اک پل کی زندگی ہے کچھ اس کے سوا نہیں
انجم باروی
(نظم اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار)
اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار
یہ اتحاد فکر و نظر کی ہے یادگار
اردو زباں ہے جملہ زبانوں کا امتزاج
جس کا ادب ہے مظہرِ روداد روزگار
جمہوریت کی آج یہ زندہ مثال ہے
الفاظ ہر زبان کے ہیں اس میں بے شمار
اردو ادب کو جن پہ ہمیشہ رہے گا ناز
سرسید اور حالی تھے وہ فخر روزگار
شعرالعجم ہو شبلی کی یا سیرت النبی
عالم میں انتخاب ہیں اردو کے شاہکار
دنیا پہ آشکار ہے آج اس کی آب و تاب
غالب نے شعر و نثر کو بخشا ہے جو وقار
سوزِ دروں ہے میر کا اک محشرِ خیال
ہے شاعری نظیر کی آشوب روزگار
تھی داغ دہلوی کی زباں سہلِ ممتنع
تھے میر انیس مرثیہ گوئی کے شہریار
اردو ادب میں جس کی نہیں ہے کوئی مثال
اقبال کا کلام ہے وہ در شاہوار
برق اعظمی ہوں ، فیض ہوں ، احمد فراز ہوں
عہدِ رواں میں گلشنِ اردو کی تھے بہار
آزاد ہے یہ مذہب و ملت کی قید سے
ہر جا ملیں گے آپ کو اردو کے جاں نثار
منشی نولکشور ہوں یا سرکشن پرساد
طرزِ عمل سے اپنے تھے اردو کے پاسدار
چکبست ہوں ، فراق ہوں ، ملا ہوں یا نسیم
اردو کے جاں نثاروں کی لمبی ہے اک قطار
ہے اقتضائے وقت کہ اردو ہو سرخرو
ماحول آؤ مل کے کریں اس کا سازگار
عہدِ رواں میں اردو ہے اک عالمی زباں
مداح جس کے برقی ہیں دنیا میں بے شمار
احمد علی برقی اعظمی
دشتِ بے سایہ میں جھلساتی ہوا سے پوچھنا
تشنگی کیا چیز ہے یہ کربلا سے پوچھتا
غیرتِ جذبات پر کیا بیتی ہے بزم میں
حرمت و توقیر کی خستہ قبا سے پوچھنا
ناز کرتے تھے کبھی میری وفاداری پر تم
کیوں ہوا میں بے وفا اپنی جفا سے پوچھنا
ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں غارِ تنہائی میں تم
شہر میں کیوں گن ہوئیں اپنی انا سے پوچھنا
کون سا جذبہ ہے اس میں کار فرما کیا کہوں
کیوں درختوں سے لپٹتی ہے لتا سے پوچھنا
وہ ترا رستے میں ملنا اور پھر بے ساختہ
مجھ سے میری خیریت ناز و ادا سے پوچھنا
شاد تم حالات کے مارے کسی انسان کی
داستاں جب پوچھنا تو ابتدا سے پوچھنا
شمشاد شاد
یوم پیدائش 20 فروری 1970
صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ
اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
ارشاد آرزو
یوم وفات 20 فروری 1972
کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے
نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے
پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا
بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے
گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے
نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے
بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں
بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے
جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں
نہیں اس سے واقف ترے عرش والے
تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا
زمانے ابھی اور ہیں آنے والے
گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری
کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے
نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے
اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے
بشیرالنساء بیگم بشیر
یوم پیدائش 19 فروری 1947
(نظم ) اپنی تصویر مجھے آپ بنانی ہوگی
میرے فن کار
!!مجھے خوب تراشا تو نے
آنکھ نیلم کی
بدن چاندی کا
یاقوت کے لب
یہ ترے
ذوق طلب کے بھی ہیں
معیار عجب
پاؤں میں میرے
یہ پازیب
سجا دی تو نے
نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے
یہ جواہر سے جڑی
قیمتی مورت میری
اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے
میں نے مانا
کہ حسیں ہے ترا شہکار
مگر
تیرے شہکار میں
مجھ جیسی کوئی بات نہیں
تجھ کو نیلم سی
نظر آتی ہیں آنکھیں میری
درد کے ان میں سمندر
نہیں دیکھے تو نے
تو نے
جب کی
لب و رخسار کی خطاطی کی
جو ورق لکھے تھے
دل پر
نہیں دیکھے تو نے
میرے فن کار
ترے ذوق
ترے فن کا کمال
میرے پندار کی قیمت
نہ چکا پائے گا
تو نے بت یا تو تراشے
یا تراشے ہیں خدا
تو بھلا کیا مری تصویر
بنا پائے گا
تیرے اوراق سے
یہ شکل مٹانی ہوگی
اپنی تصویر
مجھے آپ بنانی ہوگی
ہوش بھی
جرأت گفتار بھی
بینائی بھی
جرأت عشق بھی ہے
ضبط کی رعنائی بھی
جتنے جوہر ہیں نمو کے
مری تعمیر میں ہیں
دیکھ یہ رنگ
جو تازہ مری تصویر میں ہیں
نیسم سید
یوم پیدائش 18 فروری 1961
دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے
پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے
ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف
تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے
ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات
آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے
دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت
روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے
اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا
رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے
آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں
بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے
عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے
سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم
ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے
اکرم نقاش
یوم پیدائش 18 فروری 1979
نظم “ یاسیت “ ٹوٹے دلوں کے نام
اب میں وحشت میں بہت دور نکل آیا ہوں
ایسی تنہائی، کہ اب کوئی نہیں ساتھ میرے
جوئے غم ، چشمۂ خوں ناب ،سے ایسے نکلی
دارِفانی سے ، کوئی روح ، چلی ہو جیسے
کوئی تارہ ، کوئی جگنو ، کوئی امید ، نہیں
اب تو ہر سانس میری ، ماتمِ تنہائی ہے
روزنِ سینۂ ء عاشق سے ، نکلتی ہے ہوا
جیسے اک سوز میں ڈوبی ہوئی شہنائی ہے
خشک آنکھوں میں بسی یاس کی تاریکی ہے
جیسے اک سوگ فضاؤں میں بکھر جاتا ہے
جیسے شمشان میں اک زندہ چتا جل جائے
چشمِ خورشید میں وہ کرب نظر آتا ہے
خاک اڑتی ہے میری خاک لئے گلشن میں
اب نہ گلشن میں کبھی فصل بہاراں ہو گی
گل نہیں ، خار نہیں ، برگ نہیں ، بار نہیں
زخم پائیں گے نمو ، بزمِ خرابا ں ہو گی
محمد محسن علی آرزو
یوم پیدائش18 فروری 1957
پھولوں کا چاندنی کا نگر یاد ہے ہمیں
خوشیوں بھری تھی جس کی ڈگر یاد ہے ہمیں
چاہت سے جس پہ لکھا تھا اِک دوسرے کا نام
پیپل کا وہ گھنیرا شجر یاد ہے ہمیں
تسنیم کوثر
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...