Urdu Deccan

Sunday, August 28, 2022

شفا گوالیاری

یوم پیدائش 26 اگست 1912

توڑ کر ہم بے خودی کی حد خودی تک آ گئے 
موت سے کرکے بغاوت زندگی تک آ گئے 

اپنی منزل آپ ہی خود آ رہے ہیں اب نظر 
ہو نہ ہو ہم آج اپنی روشنی تک آ گئے 

اے غم عالم تری اس دل نوازی کے نثار 
تیرے نزدیک آ کے جیسے ہر خوشی تک آ گئے 

کیوں فضاؤں میں نظر آتے ہیں جلوؤں کے غبار 
کیا مہ و خورشید گرد آدمی تک آ گئے 

بجھ رہی ہیں جن کی خاطر عشرتیں کونین کی 
ایسے غم بھی کچھ ہماری زندگی تک آ گئے 

اب محبت کا ہر اک رخ آئنہ بن جائے گا 
آج ہم ان کی نگاہ بے رخی تک آ گئے 

فطرتاً اب ہو چلا انسان فطرت آشنا 
خود گماں سارے یقیں کی روشنی تک آ گئے 

شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ 
اے شفاؔ ہم بھی مقام زندگی تک آ گئے

شفا گوالیاری

کون آ گیا یہ حشر کا ساماں لئے ہوئے
دامن میں اپنے میرا گریباں لئے ہوئے

ہر ایک غم ہے عیش کا عنواں لئے ہوئے
شام خزاں ہے صبح بہاراں لئے ہوئے

سجدہ ہے میرا ذوق فراواں لئے ہوئے
اٹھے گا اب تو سر در جاناں لئے ہوئے

بعد رہائی بھی نہ میں زنداں سے جاؤں گا
بیٹھا رہوں گا عزت زنداں لئے ہوئے

اب بھی نہ خندہ لب ہوں مرے زخم ہائے دل
وہ مسکرا رہے ہیں نمکداں لئے ہوئے

اے چارہ ساز بیٹھ یہ چارہ گری بھی دیکھ
اٹھے گا میرا درد ہی درماں لئے ہوئے

رنگینیٔ تبسم پیہم نہ پوچھئے
جیسے وہ آ رہے ہوں گلستاں لئے ہوئے

ایسا بھی کاش آئے محبت میں انقلاب
وہ آئیں میری دید کا ارماں لئے ہوئے

کیسی بہار آئی ہے اب کے بہ رنگ نو
ہر ایک گل ہے خون شہیداں لئے ہوئے

امکان سہو ہم سے بھی ممکن ہے اے شفاؔ
انسانیت کا ہم بھی ہیں امکاں لئے ہوئے

شفا گوالیاری




ساغر صدیقی

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا

نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا

دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا

قفس میں یوُں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا

وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا

تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

حیات و موت کی تفریق کیا کریں ساغر
ہماری شانِ خود کہہ رہی ہے سب اچھا

ساغر صدیقی

 


آتش اندوری

یوم پیدائش 08 اگست 1977

کاش میں تجھ سا بے وفا ہوتا 
پھر مجھے تجھ سے کیا گلہ ہوتا 

عشق ہوتا ہے کیا پتا ہوتا 
گر پرندوں سے واسطہ ہوتا

بول کے مجھ سے گر جدا ہوتا 
ملنے جلنے کا سلسلہ ہوتا 

بے وفائی کا سرخ رنگ بھی ہے 
عشق میں ورنہ کیا مزہ ہوتا 

خود پہ گر اختیار ہوتا تو 
دور میں تجھ سے جا چکا ہوتا 

حصے میں آتا صرف امیروں کے 
عشق پیسوں میں گر بکا ہوتا

آتش اندوری



علی ارمان

یوم پیدائش 25 اگست 1973

ترے خیال کا نشہ اترتا جاتا ہے 
ٹھہر ٹھہر کے کوئی پل گزرتا جاتا ہے 

بکھرتی ہے مرے چہرے پہ جتنی پیلاہٹ 
اے زندگی ترا چہرہ نکھرتا جاتا ہے 

زمیں کو بھوک لگی پھر کسی تمدن کی 
یہ کون زینۂ عبرت اترتا جاتا ہے 

بتا رہی ہے تھکن تیرے زرد لہجے کی 
ترے لہو میں کوئی خواب مرتا جاتا ہے 

جسے سجانا تھا ارمان اس کی زلفوں میں 
وہ پھول اس کی طلب میں بکھرتا جاتا ہے

علی ارمان



نینا سحر

یوم پیدائش 25 آگست 1966

کیا کرشمہ تھا خدایا دیر تک 
خود کو کھو کر خود کو پایا دیر تک 

چھو کے لوٹا جب تجھے میرا خیال 
ہوش میں واپس نہ آیا دیر تک 

کل کوئی جھونکا ہوا کا چھو گیا 
اور پھر تو یاد آیا دیر تک 

ہم تری آغوش میں تھے رات بھر 
''ماہ کامل مسکرایا دیر تک'' 

کل ترے احساس کی بارش تلے 
میرا سونا پن نہایا دیر تک 

سن کے بھیگی رات کی سرگوشیاں 
اک کنوارا پن لجایا دیر تک

نینا سحر



شبیر احمد قرار

یوم پیدائش 25 اگست 1941

سب سے ہنس کر ہاتھ ملانا سیکھ لیا 
جینا کیا سیکھا مر جانا سیکھ لیا 

دیواروں پر بستی کی اوقات کھلی 
بچوں نے تصویر بنانا سیکھ لیا 

کالی پیلی تفسیروں کی زد پر ہوں 
خاموشی نے شور مچانا سیکھ لیا 

سورج طعنے مارے چندا شرمائے 
راتوں نے کاجل پھیلانا سیکھ لیا 

آہ سفر دم ماں کے آنسو کل کی بات 
اب تو گھر نے ہاتھ ملانا سیکھ لیا 

جانے بوجھے لوگ بھی کل کو روتے ہیں 
وقت نے شاید لوٹ کے آنا سیکھ لیا 

لکڑی کی تلوار کہاں میدان کہاں 
شہزادے نے جان چرانا سیکھ لیا 

شبیر احمد قرار



کالی داس گپتا رضا

یوم پیدائش 25 اگست 1925

جب فکروں پر بادل سے منڈلاتے ہوں گے 
انساں گھٹ کر سائے سے رہ جاتے ہوں گے 

دو دن کو گلشن پہ بہار آنے کو ہوگی 
پنچھی دل میں راگ سدا کے گاتے ہوں گے 

دنیا تو سیدھی ہے لیکن دنیا والے 
جھوٹی سچی کہہ کے اسے بہکاتے ہوں گے 

یاد آ جاتا ہوگا کوئی جب راہی کو 
چلتے چلتے پاؤں وہیں رک جاتے ہوں گے 

کلی کلی برہن کی چتا بن جاتی ہوگی 
کالے بادل گھر کر آگ لگاتے ہوں گے 

دکھ میں کیا کرتے ہوں گے دولت کے پجاری 
روپ کھلونا توڑ کے من بہلاتے ہوں گے

کالی داس گپتا رضا
 


غنی حیدر گنجوی

یوم پیدائش 24 اگست 1924

ہیں کفر کے فتوے تو اوروں کے لیے لیکن
میزانِ شریعت پہ کیا خود کو بھی تولا ہے

غنی حیدر گنجوی



Wednesday, August 24, 2022

مجیب ظفر انوار حمیدی

یوم پیدائش 24 اگست 1960

حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نہیں کرتے

کیوں بیٹھے ہو خاموش سرہانے میرے آ کر
یارو مرے جینے کی دعا کیوں نہیں کرتے

پھولوں کی طرح جسم ہے پتھر کی طرح دل
جانے یہ حسیں لوگ وفا کیوں نہیں کرتے

ہر بات پرندوں کی طرح اڑتی ہوئی سی
جو بات بھی کرتے ہو سدا کیوں نہیں کرتے

لو دیکھو حمیدیؔ لب دریا پہ ہے دریا
پر پیاس ہے کب کی یہ پتا کیوں نہیں کرتے

مجیب ظفر انوار حمیدی


 

اشوک ساحل

یوم وفات 24 آگست 2020

اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں 
میں چاہتا ہوں کوئی نیک کام کر جاؤں 

خدا کرے مرے کردار کو نظر نہ لگے 
کسی سزا سے نہیں میں خطا سے ڈر جاؤں 

ضرورتیں میری غیرت پہ طنز کرتی ہیں 
مرے ضمیر تجھے مار دوں کہ مر جاؤں 

بہت غرور ہے بچوں کو میری ہمت پر 
میں سر جھکائے ہوئے کیسے آج گھر جاؤں 

مرے عزیز جہاں مجھ سے مل نہ سکتے ہوں 
تو کیوں نہ ایسی بلندی سے خود اتر جاؤں

اشوک ساحل

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...