یوم پیدائش 24 جنوری 1996
ذرا سا دل کو کریدا تو ایک داغ ملا
اسی سے ہجرِ مسلسل کا پھر سراغ ملا
کہیں چراغ سے جلتی ہوئی ہوا دیکھی
کہیں ہواؤں سے جلتا ہوا چراغ ملا
نہ جانے کونسا مہمان آنے والا ہے
کئی منڈیریں اچھلتا سیاہ زاغ ملا
جناب آپ تو مدت سے اپنے حجرے میں
خدا کو ڈھونڈ رہے تھے، کوئی سراغ ملا؟
تمہاری یاد میں سانسیں تھکن سے چور ہوئیں
کبھی کہیں نہ کوئی لمحہ ء فراغ ملا
وہ جس کو پی کے ملے ہوش اور پیاس بڑھے
مجھے بدستِ قلندر وہی ایاغ ملا
فیضان
فیضی
No comments:
Post a Comment