یوم پیدائش 30 جنوری 1934
نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے
خیمے والوں کی جو بستی تشنہ لب تھی اب بھی ہے
اڑ رہے ہیں وقت کی رفتار سے مغرب کی سمت
وقت آغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے
وقت جیسے ایک ہی ساعت پہ آ کے رک گیا
پہلے جس شدت سے جو دل میں طلب تھی اب بھی ہے
ہم شکایت آنکھ کی پلکوں سے کرتے کس طرح
داستان ظلم ورنہ یاد سب تھی اب بھی ہے
حسن میں فطری حجابانہ روش اب ہو نہ ہو
عشق کے مسلک میں جو حد ادب تھی اب بھی ہے
روز و شب بدلیں گے اپنے کس طرح آئے یقیں
صورت حالات جو پہلے عجب تھی اب بھی ہے
ہیں بقا کے وسوسے میں ابتدا سے مبتلا
دل میں اک تشویش سی جو بے سبب تھی اب بھی ہے
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment