یوم پیدائش 29 جنوری 1953
یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم
پھر اس کے بعد میں ہوتا ہوں شش جہات میں گم
یہ کائنات مری جان قفل ابجد ہے
میں کھولتا ہوں اسے کر کے ممکنات میں گم
یہ دائرے ہیں تمہیں پھر سے قید کر لیں گے
فنا سے نکلے تو ہو جاؤ گے ثبات میں گم
میں کربلا ہوں مجھے دیکھ میری قامت دیکھ
زمانہ کر نہیں سکتا مجھے فرات میں گم
تری جدائی کا نیلم الگ سے رکھا ہے
کیا نہیں اسے دنیا کے زیورات میں گم
مرا بڑھاپا مری روح کی تلاش میں ہے
مری جوانی بدن کے لوازمات میں گم
میں علم ہوں مجھے تسخیر کرنا آتا ہے
وہ جہل تھا جو ہوا تیری کائنات میں گم
مقسط ندیم
No comments:
Post a Comment