تم کبھی جو نہ آئی
میرے خوابوں کی دنیا میں
اک لمحہ تم جو آ جاتے
میری بکھری
لاکھوں یادوں کا دروازہ
چپکے چپکے
سے کھل جاتا
تیری الفت
کے رنگوں میں
میں خود اپنے اندر
سب کچھ ہی کھو جاتا
لیکن
تو نہیں آئی
میں نے تیری خاطر
پھولوں کے بستر پر
اس گھر کی چوکھٹ پر
خود کو سجا کے
بیٹھی
شب بھر میری آنکھیں
تیری راہیں تکتی تکتی
پھر نہ جانے
حامیؔ کی چاہت میں
تو کبھی نہیں آئی
تو کبھی نہیں آئی
نعمان حیدر حامیؔ
No comments:
Post a Comment