یوم پیدائش 27 جنوری 1942
دشمنِ جاں تھا مگر وہ جان سے پیارا لگا
ہجر کی شب میں مجھے امید کا تارا لگا
میں مسافر دھوپ کے رستے میں پیاسا ہی رہا
وہ سرابِ محض نکلا جو مجھے دریا لگا
چاند سے میں کیا کہوں دیتا ہے دھوکا یہ مجھے
چودھویں کی رات تھی کل چاند تم جیسا لگا
حسرتوں کے پھول بس کھلتے ہی مرجھانے لگے
یوں دغا دے کر گیا وہ دل میں کانٹا سا لگا
اک زرا سی بات سے رشتے بھی پہچانے گئے
خیر تھا وہ شخص کتنا جو مجھے اپنا لگا
یوں اٹھا شہزاد سارا اعتبارِ آدمی
مجھ کو اپنے آپ سے بھی جان کا دھڑکا لگا
ضیاء شہزاد
No comments:
Post a Comment