یوم پیدائش 05 فروری 1940
مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت
کہ دیکھ لوں تجھے پل بھر مجھے یہی ہے بہت
یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت
کچھ اس خطا کی سزا بھی تو کم نہیں ملتی
غریب شہر کو اک جرم آگہی ہے بہت
کہاں سے لاؤں وہ چہرہ وہ گفتگو وہ ادا
ہزار حسن ہے گلیوں میں آدمی ہے بہت
کبھی تو مہلت نظارہ نکہت گزراں
لبوں پہ آگ سلگتی ہے تشنگی ہے بہت
کسی نے ہنس کے جو دیکھا تو ہو گئے اس کے
کہ اس زمانے میں اتنی سی بات بھی ہے بہت
محمود شام
No comments:
Post a Comment