نہ بُزدل اتنا سمجھ ہم نے کر بھی جانا ہے
مقامِ شوق سے آگے گزر بھی جانا ہے
ذرا سی دیر ترے ہاں قیام ہے میرا
کہ اِس کے بعد مجھے اپنے گھر بھی جانا ہے
گھُلا ہوا ہے فضا میں عداوتوں کا جو زہر
نہ سانس لو یہ لہو میں اُتر بھی جانا ہے
لکھی نہیں ہے مقدر میں سب کے با ثمری
جہان سے کسی نے بے ثمر بھی جانا ہے
نظامِ گردشِ دوراں ہے انگلیوں پہ تری
جو تُو نے کہنا ہے رُک, یہ ٹھہر بھی جانا ہے
چلایا جاتا رہا مجھ کو سیدھے رستے پر
سو اب کی بار غلط راہ پر بھی جانا ہے
فقط ہوا نہیں ہوگی اُجالوں کی قاتل
کچھ ان کا قتل چراغوں کے سر بھی جانا ہے
مری کچھ اور پذیرائی ہونی ہے عارف
تری گلی سے نکل کر جدھر بھی جانا ہے
عارف بن قادر
No comments:
Post a Comment