یوم پیدائش 15 اپریل 1972
مرا وجود ضروری تھا داستاں کے لیے
مگر اُتارا گیا مرگِ ناگہاں کے لیے
زمیں پہ بھیجنے والے زمیں سنبھال اپنی
نکل پڑا ہوں میں تسخیرِ آسماں کے لیے
اے مقتلِ شبِ تاریک تھوڑی مہلت دے
مجھے چراغ جلانے ہیں کارواں کے لیے
ہر ایک ظلم پہ میری صدا بلند ہوئی
خدائے پاک! میں حاضر ہوں امتحاں کیلئے
یہ بانجھ ضابطے روزی رساں نہیں ہوتے
کمانا پڑتا ہے بچوں کو خانداں کے لئے
ہوائیں کل بھی مسافر شناس ہوتی تھیں
ہوائیں آج بھی چلتی ہیں بادباں کے لیے
تمہارا لمس رہا محوِ گفتگو مجھ سے
یہ سانس چلتی رہی زیبِ داستاں کے لیے
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment