Urdu Deccan

Friday, April 23, 2021

خلیل فرحت کارنجوی

 یوم پیدائش 16 اپریل 1935


دل سے مرے تنہائی کی شدت نہیں جاتی

اب تو بھی چلا آئے تو وحشت نہیں جاتی


اس دور کی تعلیم کا معیار عجب ہے

تعلیم تو آتی ہے جہالت نہیں جاتی


کیا سوچ کے امید وفا باندھی تھی تم سے

اک عمر ہوئی دل کی ندامت نہیں جاتی


مفلس بھی تو خوددار ہوا کرتے ہیں لوگو

غربت میں بھی انساں کی شرافت نہیں جاتی


لے جاتی ہیں اب تک بھی مری نیند چرا کر

اب تک بھی ان آنکھوں کی شرارت نہیں جاتی


دے دیتا ہے اللہ مجھے حسب ضرورت

اب لے کے کسی در پہ ضرورت نہیں جاتی


سو بار تری جان پہ بن آئی ہے فرحتؔ

پھر بھی تری حق گوئی کی عادت نہیں جاتی



خلیل فرحت کارنجوی

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...