یوم پیدائش 16 اپریل 1935
دل سے مرے تنہائی کی شدت نہیں جاتی
اب تو بھی چلا آئے تو وحشت نہیں جاتی
اس دور کی تعلیم کا معیار عجب ہے
تعلیم تو آتی ہے جہالت نہیں جاتی
کیا سوچ کے امید وفا باندھی تھی تم سے
اک عمر ہوئی دل کی ندامت نہیں جاتی
مفلس بھی تو خوددار ہوا کرتے ہیں لوگو
غربت میں بھی انساں کی شرافت نہیں جاتی
لے جاتی ہیں اب تک بھی مری نیند چرا کر
اب تک بھی ان آنکھوں کی شرارت نہیں جاتی
دے دیتا ہے اللہ مجھے حسب ضرورت
اب لے کے کسی در پہ ضرورت نہیں جاتی
سو بار تری جان پہ بن آئی ہے فرحتؔ
پھر بھی تری حق گوئی کی عادت نہیں جاتی
خلیل فرحت کارنجوی
No comments:
Post a Comment