لُٹے لُٹائے سہی اہتمام رکھتے ہیں
فقیر سب کے لئے انتظام رکھتے ہیں
سبق پڑھاؤ نہیں تم ہمیں شجاعت کا
ہم اپنے ساتھ خدائی نظام رکھتے ہیں
کبھی کبھی تو خیالوں میں بھی نہیں آتے
کبھی کبھی مرے دل میں قیام رکھتے ہیں
کبھی کبھی وہ گذرتے ہیں اجنبی بن کر
کبھی کبھی تو بہت اہتمام رکھتے ہیں
کبھی کبھی تو وہ خاموش ہیں سمندر سے
کبھی کبھی وہ بڑی دھوم دھام رکھتے ہیں
کوئی تمھارے سِوا اب نظر نہیں آتا
تمھارے نام اُٹھا صبح شام رکھتے ہیں
جواب دیں گے سرِ حشر وہ بھی رازق کو
جو تاجرانِ جہاں اونچے دام رکھتے ہیں
کبھی تو بہرِ خدا لب تلک ہنسی آئے
ہُجُومِ غم کا شرر ازدہام رکھتے ہیں
خضر احمد خان شرر
No comments:
Post a Comment