یوم پیدائش 02 جون 1993
حق کی جانب میں جب سےکھڑا ہو گیا
ہر کسی کے لیے مسئلہ ہوگیا
عیب سارے مرے مجھ کو دکھنے لگے
میں جو خود کے لیے آئینہ ہو گیا
ساری دنیا مرے پیچھے کیوں پڑ گئی
الفتیں بانٹ کر میں! بُرا ہوگیا
قدر و قیمت نہیں اصل کی اب کوئی
کھوٹا سکہ جو ہرسو کھرا ہو گیا
تتلیاں اور بھنورے بھی بیکل ہوے
شاخ سے پھول جس دم جدا ہو گیا
مال و دولت کی اب کیا ضرورت تجھے
جب سراپا میں جاناں ترا ہوگیا
پیار الفت کے چھیڑو قمر راگ اب
نفرتوں کا یہاں دبدبہ ہوگیا
خورشید قمرؔ
No comments:
Post a Comment