یوم پیدائش 02 جون 1930
دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم
اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم
منہ پر جو یہ جلے ہوئے دامن کی راکھ ہے
شعلوں میں زندگی کے نہاتے رہے ہیں ہم
اتنا نہ کھل سکا کہ ہوا کس طرف کی ہے
سارے جہاں کی خاک اڑاتے رہے ہیں ہم
آنکھوں سے دل تک ایک جہان سکوت ہے
سنتے ہیں اس دیار سے جاتے رہے ہیں ہم
تیرا خیال مانع عرض ہنر ہوا
کس کس طرح سے جی کو جلاتے رہے ہیں ہم
کس کی صدا سنی تھی کہ چپ لگ گئی شہابؔ
ساتوں سروں کا بھید گنواتے رہے ہیں ہم
شہاب جعفری
No comments:
Post a Comment