Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

آفتاب قابل

 وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں

وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں


کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں

کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں


جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں

خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں


وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ

ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں


ہوش میں رہیئے اب جناب دل

ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں


دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل

بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں


ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا

ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں


تم کھلونا ہو میری ہستی کا

تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں


رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے

ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں


ہو کوئی غم گسار تو پوچھے

کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں


اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر

اس سے پہلے ہو رائیگاں آنکھیں


جو زباں سے کبھی نہیں نکلا

کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں


اب نہیں حال زار پر میرے

تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں


آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں

ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں


وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل

چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں


آفتاب قابل


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...