وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں
وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں
کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں
کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں
جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں
خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں
وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ
ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں
ہوش میں رہیئے اب جناب دل
ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں
دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل
بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں
ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا
ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں
تم کھلونا ہو میری ہستی کا
تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں
رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے
ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں
ہو کوئی غم گسار تو پوچھے
کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں
اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر
اس سے پہلے ہو رائیگاں آنکھیں
جو زباں سے کبھی نہیں نکلا
کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں
اب نہیں حال زار پر میرے
تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں
آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں
ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں
وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل
چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں
آفتاب قابل
No comments:
Post a Comment