یوم پیدائش 30 جون 1916
ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے
ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے
کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے
ہم زندگی کی جہد مسلسل کے واسطے
موجوں کی طرح سینۂ طوفاں میں ڈھل گئے
جب بھی کوئی فریب دیا اہل دہر نے
ہم اک نظر شناس کوئی چال چل گئے
حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے
ہم نے لچک نہ کھائی زمانے کی ضرب سے
گو حادثات دہر کی رو میں کچل گئے
نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
ہم دامن حیات پکڑ کر مچل گئے
کرار نوری
No comments:
Post a Comment