نہیں ہے پاس مگر تو دکھائی دیتا ہے
ترا خیال مجھے کب رہائی دیتا ہے
ترے لبوں سے ادا ہو اگر کوئی جملہ
مجھے وہ شعر کی صورت سنائی دیتا ہے
مرا گمان بدل جاتا ہے حقیقت میں
بغیر پوچھے جب اپنی صفائی دیتا ہے
گھٹا بھی دے یہ جدائی کا بے ثمر موسم
بھلا تو کیوں مجھے زخم جدائی دیتا ہے
قریب آ کے فقط ایک فکر لاحق ہے
وہ دل تک اپنے مجھے کب رسائی دیتا ہے
مرے رفیق مرے غم گسار تو ہی بتا
ہر ایک چہرے میں وہ کیوں دکھائی دیتا ہے
مری کتاب کی کوئی غزل اٹھا لے تو
ہر ایک شعر کا مصرع دہائی دیتا ہے
جو میری مانے تو فرخؔ اسے بھلا دے اب
وفا کے بدلے میں جو بے وفائی دیتا ہے
فرخ نواز فرخ
No comments:
Post a Comment