Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

خالد ندیم بدایونی

 اوراق زندگی کے ہوا میں اُچھال کر

کہہ دونگا آسمان سے رکھ لے سنبھال کر


دُنیائے بے ثبات کو حیرت میں ڈال کر

ایڑی سے ہم دکھاتے ہیں دَریا نکال کر


بچّوں نے رُخ ہواؤں کا پل میں سمجھ لیا

کاغذ کی ایک ناؤ سمندر میں ڈال کر


پروان کیا چڑھے کہ وہ آزاد ہو گئے

طائر جو میں نے رکھے تھے پنجرے میں پال کر


جِن کو تھا نا خُدائی کا دعویٰ نہ لا سکے

طغیانیوں کے بیچ سے کشتی نکال کر


وُسعت پہ جن کو فخر ہے گہرائیوں پہ ناز

دیکھے ہیں میں نے وہ بھی سمندر کھنگال کر


اُلفت کے اب مکان کی تعمیر تُم کرو

وہ جا چُکا ہے عشق کی بُنیاد ڈال کر


خالد ندیم بدایونی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...