اوراق زندگی کے ہوا میں اُچھال کر
کہہ دونگا آسمان سے رکھ لے سنبھال کر
دُنیائے بے ثبات کو حیرت میں ڈال کر
ایڑی سے ہم دکھاتے ہیں دَریا نکال کر
بچّوں نے رُخ ہواؤں کا پل میں سمجھ لیا
کاغذ کی ایک ناؤ سمندر میں ڈال کر
پروان کیا چڑھے کہ وہ آزاد ہو گئے
طائر جو میں نے رکھے تھے پنجرے میں پال کر
جِن کو تھا نا خُدائی کا دعویٰ نہ لا سکے
طغیانیوں کے بیچ سے کشتی نکال کر
وُسعت پہ جن کو فخر ہے گہرائیوں پہ ناز
دیکھے ہیں میں نے وہ بھی سمندر کھنگال کر
اُلفت کے اب مکان کی تعمیر تُم کرو
وہ جا چُکا ہے عشق کی بُنیاد ڈال کر
خالد ندیم بدایونی
No comments:
Post a Comment