یوم پیدائش 14 جون 1946
شب کے غم دن کے عذابوں سے الگ رکھتا ہوں
ساری تعبیروں کو خوابوں سے الگ رکھتا ہوں
جو پڑھا ہے اسے جینا ہی نہیں ہے ممکن
زندگی کو میں کتابوں سے الگ رکھتا ہوں
اس کی تقدیس پہ دھبہ نہیں لگنے دیتا
دامن دل کو حسابوں سے الگ رکھتا ہوں
یہ عمل ریت کو پانی نہیں بننے دیتا
پیاس کو اپنی سرابوں سے الگ رکھتا ہوں
اس کے در پر نہیں لکھتا میں حساب دنیا
دل کی مسجد کو خرابوں سے الگ رکھتا ہوں
ظفر صہبائی
No comments:
Post a Comment