یوم پیدائش 28 مئی 1723
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا
کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر
تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment