یوم پیدائش 07 جون 1936
اٹھ چلے وہ تو اس میں حیرت کیا
ان کے آگے وفا کی قیمت کیا
اس کے کوچے سے ہو کے آیا ہوں
اس سے اچھی ہے کوئی جنت کیا
شہر سے وہ نکلنے والے ہیں
سر پہ ٹوٹے گی پھر قیامت کیا
تیرے بندوں کی بندگی کی ہے
یہ عبادت نہیں عبادت کیا
کوئی پوچھے کہ عشق کیا شے ہے
کیا بتائیں کہ ہے محبت کیا
آنسوؤں سے لکھا ہے خط ان کو
پڑھ وہ پائیں گے یہ عبارت کیا
میں کہیں اور دل لگا لوں گا
مت کرو عشق اس میں حجت کیا
گرم بازار ہوں جو نفرت کے
اس زمانے میں دل کی قیمت کیا
کتنے چہرے لگے ہیں چہروں پر
کیا حقیقت ہے اور سیاست کیا
ساغر خیامی
No comments:
Post a Comment